#RamzanEating
شوگر کا مرض میں روزے کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے بس تھوڑی سے احتیاط کی ضرورت ہے۔شوگر کے مریض عام افراد کی طرح ماہ رمضان کی برکتیں سمیٹ سکتے ہیں۔ پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 70 لاکھ سے زائد ہے۔ اور ماہ صیام میں شوگر کے مرض میں مبتلا افراد بھی روزہ جیسی عبادت کی تمام برکات سمیٹ سکتے ہیں لیکن دی ڈائیابیٹس سنٹر پاکستان آپ کو مشورہ دیتا ہے کہ اس کے لئے ضروری ہے کہ معالج سے لازمی مشورہ کیا جائے۔
اگر آپ زیابیطس کے مریض ہیں تو زیر نظر معلومات خود بھی پڑھیں اور سب کے ساتھ ابھی شئیر کریں۔ ان معلومات کے بعد آپ بھی رمضان میں انجوائے کرسکتے ہیں صحت اور عافیت کے ساتھ۔انشااللہ
ذیابیطس یا عرف عام شوگر کا مرض ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسولین کی کمی یا انسولین کے اثر میں خرابی کی وجہ سے خون میں شوگر کی زیادتی ہو جاتی ہے۔
شوگر کی بہت سی اقسام ہیں لیکن عموماً ذیابیطس کو دو بڑی اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔ٹائپ ون ذیابیطس بچوں اور چھوٹی عمر کے نوجوان میں ہوتی ہے۔ اس قسم کی شوگر میں لبلبہ انسولین بنانا ترک کر دیتا ہے۔ ایسے مریضوں کو ہر صورت میں انسولین بطور علاج استعمال کرنا پڑتی ہے۔ انسولین استعمال نہ کرنے کی صورت میں شدید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں جو کہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا ان مریضوں کو چاہئے کہ وہ روزہ نہ رکھیں
۔ٹائپ ٹو ذیابیطس میں انسولین تو موجود ہوتی ہے لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر انسولین جسم میں شوگر کنٹرول کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے خون میں شوگر کی زیادتی ہو جاتی ہے۔ 90-95 فیصد مریض شوگر کے مرض کی اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ عام طور پر 40 سال کی عمر کے بعد اور موٹے لوگوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس قسم کے شوگر کے مریض سحری کے وقت کم گھی والا پراٹھا اور دہی ، افطاری کے وقت ایک سے دو کھجور کھا سکتے ہیں۔
مریض کو شوگر کی دوائیاں اپنے معالج کی ہدایت پر استعمال کرنی چاہیں۔ روزہ رکھتے ہوئے اگر آپ کی شوگر سحری سے پہلے80 سے 110، سحری کے دو گھنٹے بعد، 140 سے 200 تک، دن12 بجے کے قریب، 120 سے 180 تک اور افطار سے پہلے 80 سے لے کر 120 تک رہتی ہے تو آپ باآسانی روزہ رکھ سکتے ہیں۔
شوگر کے ایسے مریض جن کی شوگر کنٹرول میں نہ رہتی ہو، جو ماضی قریب میں بہت زیادہ بیمار ہوں، جن کے گردے، آنکھیں یا اعصاب ذیابیطس سے شدید متاثر ہو چکے ہوں، گردوں کا ڈائلسس کرانے والے اور حاملہ خواتین کو روزہ رکھنے سے اجتناب کرناچاہئے۔
دوران رمضان غذا میں تازہ پھل، سبزیاں اور دہی کا استعمال کیا جائے شوگر کے مریضوں کے لئے فائدہ مند ہے۔ جب کہ افطار میں صرف 2 زیادہ سے کھجوریں کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ رمضان المبارک ویسے بھی ہماری زندگی میں نظم و ضبط لاتا ہے اور اگر شوگر کے مریض ذرا سے احتیاط سے کام لیں تو وہ بھی عام لوگوں کی طرح باآسانی روزہ رکھ سکتے ہیں۔
شوگر کی علامات میں پیاس کا لگنا‘ پیشاب کی زیادتی اور بار بار آنا‘ وزن کی کمی‘ جسم میں دردوں کا ہونا‘ ہاتھ پاؤں میں سنسناہٹ کا ہونا‘ جلد کے امراض مثلاً خارش‘ پھوڑے یا پھنسی کا ہونا‘ زخم کا جلد ٹھیک نہ ہونا‘ دانتوں اور مسوڑھوں میں تکلیف ہونا‘ نظر کمزور ہونا‘ لیکن کبھی ایسا بھی اتفاق ہوتا ہے کہ مریض میں مندرجہ بالا کوئی علامات نہیں پائی جاتی۔بلڈپریشر کے ساتھ موٹاپا ہو تو ذیابیطس کا خدشہ بڑھ جاتا ہے لہٰذا شوگر چیک کروا کر اس کا شک دور کر لینا چاہئے۔
شوگر کے مریض کو غنودگی‘ سر درد‘ چکر‘ بے چینی‘ گھبراہٹ‘ ٹھنڈے پسینے آئیں یا دل کی دھڑکن بڑھ جائے یا پھر جسم کانپنے لگے اور بہت زیادہ کمزوری ہو جائے، اس طرح نظر میں دھندلاپن ہو تو یہ خون میں شوگر کی کمی کی علامات ہیں۔ اس کو اگر بروقت کنٹرول نہ کیا جائے اور خون میں شوگر چالیس ملی گرام سے کم ہو جائے تو بے ہوشی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کیلئے فوراً 2‘ 3 چمچ چینی پانی میں ملا کر مریض کو پلائیں۔ ایسے مریض جن کی شوگر بار بار بہت زیادہ یا پھر کم ہو رہی ہو ان کو روزہ نہیں رکھنا چاہئے بلکہ اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں تو بہتر ہو گا۔
شوگر کے مریض وزن کو نہ بڑھنے دیں بلکہ معتدل رکھیں۔ورزش اور سیر نہایت مفید ہے۔ روزانہ ایک سے دو میل پیدل چلنا بہت ضروری ہے۔فکر اور پریشانی سے بچیں کیونکہ ان سے شوگر کا کنٹرول بگڑ جاتا ہے۔موروثی وراثت میں شوگر کا مرض ہو تو پرہیز زیادہ ضروری ہے۔ دانتوں مسوھوڑں‘ پاؤں کی انگلیوں‘ ناخنوں اور زخموں میں صفائی کا خاص خیال رکھیں۔
شوگر کی گولیاں ایک مدت تک کام کرتی ہیں اس کے بعد انسولین کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسولین لگوانے سے ڈرنا نہیں چاہئے۔
پرہیز والی خوراک میں مٹھائی ہر قسم کی‘ حلوہ کھیر‘ گڑ‘ شربت‘ شکوائش‘ میٹھا دودھ‘ لسی‘ ملک شیک‘ جوس‘ کسٹرڈ‘ پڈنگ‘ کیک‘ پیسٹری‘ بسکٹ‘ گلوکوز‘ سوفٹ ڈرنک (بوتلیں)‘ جیلی‘‘ بلائی کریم‘ گاجر کا حلوہ‘ چاکلیٹ‘ بند ڈیوں کے پھل و مربے نوڈلز اور سپیگٹی شامل ہیں۔
آلو‘ شلغم‘ چقندر‘ اروی‘ گاجر‘ مٹر‘ ماش کی دال‘ چاول‘ سویاں‘ دلیہ‘ گندم‘ مکئی‘ جوار‘ باجوہ‘ ڈبل روٹی‘ آلو بخارا‘ انار‘ لوکاٹ‘ چکوترہ اور خربوزہ (½ کھائیں)، شریفہ‘ چیکو‘ پپیتا‘ پنیر‘ مارجرین و مکھن اور سبزیوں کا تیل کی کم اور اعتدال میں تھوڑی مقدار لی جاسکتی ہے۔
جامن‘ بھنے چنے کالے کی دال‘ بیسن‘ پکوڑے(کم تیل میں یا بیک کرلیں)‘ سبز پتوں والی سبزیاں مثلاً سلاد‘ ساگ‘ پالک‘ کریلے‘ میتھی‘ بند گوبھی‘ ٹینڈے‘ کدو‘ توریاں‘ بھنڈی‘ پھلیاں‘ لوبیہ‘ دال مسور‘ چاروں مکس دالیں‘ کھیرا‘ ککڑی‘ فالسہ‘ لیموں بغیر چینی‘ دودھ‘ دہی اور لسی‘ چائے‘ مرغ‘ مچھلی (بغیر تلے ہوئے) بکرے کا گوشت بغیر چربی‘ پیاز‘ ہری مرچ‘ سفید و لال مولی اور بینگن‘ تازہ کریلے اور جامن کا جوس مفید ہے۔
پھل کھا سکتے ہیں لیکن اعتدال میں ۔
روزانہ کسی ایک بڑے یا دو چھوٹے پھلوں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ سیب‘ انار‘ آڑو‘ کنو‘ مالٹا‘ ناشپاتی‘ خوبانی‘ کیلا‘ خربوزہ ½ کھائیں۔ 2 امرود اور 2 آلو بخارے‘ انگور 8 دانے‘ چھوٹا آم و تربوز ہفتہ میں ایک لے سکتے ہیں۔ بشرطیکہ شوگر کنٹرول ہو۔
رمضان میں صحت مند رہیں تاکہ عبادات میں دل لگے اور آپ اس ماہ کا لطف اٹھا سکیں۔رمضان میں تکلیف نہیں اٹھانی بلکہ اس کو انجوائے کرنا ہے